کوئی جو رہتا ہے رہنے دو مصلحت کا شکار چلو کہ جشن بہاراں منائیں گے سب یار چلو نکھاریں گے اپنے لہو سے عارض گل یہی ہے رسم وفا اور منچلوں کا شعار جو زندگی میں ہے وہ زہر ہم بھی پی ڈالیں چلو ہٹائیں گے پلکوں سے راستوں کے خار یہاں تو سب ہی ستم دیدہ غم گزیدہ ہیں کرے گا کون بھلا زخم ہائے دل کا شمار چلو کہ آج رکھی جائے گی نہاد چمن چلو کہ آج بہت دوست آئیں گے سر دار