Iztirab

Iztirab

کوئی محمل نشیں کیوں شاد یا نا شاد ہوتا ہے

کوئی محمل نشیں کیوں شاد یا ناشاد ہوتا ہے
غبار قیس خود اٹھتا ہے خود برباد ہوتا ہے
قفس کیا حلقہ ہائے دام کیا رنج اسیری کیا
چمن پر مٹ گیا جو ہر طرح آزاد ہوتا ہے
یہ سب نا آشنائے لذت پرواز ہیں شاید
اسیروں میں ابھی تک شکوہ صیاد ہوتا ہے
بہار سبزہ و گل ہے کرم ہوتا ہے ساقی کا
جواں ہوتی ہے دنیا مے کدہ آباد ہوتا ہے
بنا لیتا ہے موج خون دل سے اک چمن اپنا
وہ پابند قفس جو فطرتا آزاد ہوتا ہے
بہار انجام سمجھوں اس چمن کا یا خزاں سمجھوں
زبان برگ گل سے مجھ کو کیا ارشاد ہوتا ہے
ازل میں اک تجلی سے ہوئی تھی بے خودی طاری
تمہیں کو میں نے دیکھا تھا کچھ ایسا یاد ہوتا ہے
سمائے جا رہے ہیں اب وہ جلوے دیدہ و دل میں
یہ نظارہ ہے یا ذوق نظر برباد ہوتا ہے
زمانہ ہے کہ خوگر ہو رہا ہے شور و شیون کا
یہاں وہ درد جو بے نالہ و فریاد ہوتا ہے
یہاں کوتاہی ذوق عمل ہے خود گرفتاری
جہاں بازو سمٹتے ہیں وہیں صیاد ہوتا ہے
یہاں مستوں کے سر الزام ہستی ہی نہیں اصغرؔ
پھر اس کے بعد ہر الزام بے بنیاد ہوتا ہے

اصغر گونڈوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *