Iztirab

Iztirab

کوئی ہنگامہ سر بزم اٹھایا جائے

کوئی ہنگامہ سر بزم اٹھایا جائے 
کچھ کیا جائے چراغوں کو بجھایا جائے 
بھولنا خود کو تو آساں ہے بھلا بیٹھا ہوں 
وہ ستم گر جو نہ بھولے سے بھلایا جائے 
جس کے باعث ہیں یہ چہرے کی لکیریں مغموم 
غیرممکن ہے کہ منظر وہ دکھایا جائے 
شام خاموش ہے اور چاند نکل آیا ہے 
کیوں نہ اک نقش ہی پانی پہ بنایا جائے 
زخم ہنستے ہیں تو یہ فصل بہار آتی ہے 
ہاں اسی بات پہ پھر زخم لگایا جائے 

زہرا نگاہ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *