Iztirab

Iztirab

کوئی یہ کیسے بتائے

کوئی یہ کیسے بتائے کہ وہ تنہا کیوں ہے 
وہ جو اپنا تھا وہی اور کسی کا کیوں ہے 
یہی دنیا ہے تو پھر ایسی یہ دنیا کیوں ہے 
یہی ہوتا ہے تو آخر یہی ہوتا کیوں ہے 
اک ذرا ہاتھ بڑھا دیں تو پکڑ لیں دامن 
ان کے سینے میں سما جائے ہماری دھڑکن 
اتنی قربت ہے تو پھر فاصلہ اتنا کیوں ہے 
دل برباد سے نکلا نہیں اب تک کوئی 
اس لٹے گھر پہ دیا کرتا ہے دستک کوئی 
آس جو ٹوٹ گئی پھر سے بندھاتا کیوں ہے 
تم مسرت کا کہو یا اسے غم کا رشتہ 
کہتے ہیں پیار کا رشتہ ہے جنم کا رشتہ 
ہے جنم کا جو یہ رشتہ تو بدلتا کیوں ہے 

کیفی اعظمی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *