Iztirab

Iztirab

کون اس باغ سے اے باد صبا جاتا ہے

کون اس باغ سے اے باد صبا جاتا ہے 
رنگ رخسار سے پھولوں کے اڑا جاتا ہے 
شعلہ شمع میں گرمی یہ کہاں سے آئی 
اس کی گرمی سے تو فانوس جلا جاتا ہے 
دل کے دھڑکوں کا یہ عالم ہے کہ بے منت دست 
پرزے ہو ہو کے گریبان اڑا جاتا ہے 
ربط پہلے جو ترے یاد کبھی کرتا ہوں 
بیٹھے بیٹھے مجھے افسوس سا آ جاتا ہے 
پوچھتا کوئی نہیں کب سے ترے کوچے میں 
دل کسی کا ہے کہ پامال ہوا جاتا ہے 
گئے وے دن کہ تمنا ہمیں اک اشک کی تھی 
اب تو ان آنکھوں سے دریا سا بہا جاتا ہے 
شام کے وقت تو کوٹھے پہ جو آتا ہے کبھی 
دیکھ کر تجھ کو یہ خورشید چھپا جاتا ہے 
بے ادب کے تئیں مطلق نہیں صحبت کا شعور 
شانہ کتنا تری زلفوں سے لگا جاتا ہے 
یوں قدم رکھ نہ زمیں پر تری رفتار سے آہ 
دل کسی کا ہے کہ ماٹی میں ملا جاتا ہے 
مصحفیؔ عشق کی وادی میں گزر ہے کس کا 
بھولا بھٹکا کوئی ایدھر کو بھی آ جاتا ہے 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *