Iztirab

Iztirab

کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی

کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی 
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی 
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے 
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی 
وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا 
بس یہی بات ہے اچھی مرے ہرجائی کی 
تیرا پہلو ترے دل کی طرح آباد رہے 
تجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی 
اس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا 
روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی 
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے 
.جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی

پروین شاکر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *