Iztirab

Iztirab

کپڑے بدل کے آئے تھے آگ مجھے لگا گئے

کپڑے بدل کے آئے تھے آگ مجھے لگا گئے 
اپنے لباس سرخ کی مجھ کو بھڑک دکھا گئے 
بیٹھے ادا سے ایک پل ناز سے اٹھے پھر سنبھل 
پہلو چرا گئے نکل جی ہی مرا جلا گئے 
رکھتے ہی در سے پا بروں لے گئے صبر اور سکوں 
فتنۂ خفتہ تھا جنوں پھر وہ اسے جگا گئے 
مجھ کو تو کام کچھ نہ تھا گو کہ وہ تھے پری لقا 
بار خدا یہ کیا ہوا کیوں وہ مجھے ستا گئے 
ہے یہ عجب طرح کی بات کیونکہ نہ ملیے اپنے ہاتھ 
دل پہ ہمارے وہ تو رات چوکی سی اک بٹھا گئے 
سحر کیا کہ ٹوٹکا آئی یہ وائے کیا بلا 
ہائے یہ جی کدھر چلا زور ادا دکھا گئے 
گرچہ نہ تھے کچھ اتنے گرم لیک دکھا ادائے شرم 
دل کو لگے جو نرم نرم سخت قلق لگا گئے 
آویں گے پھر بھی مصحفیؔ دیکھنے میرے گھر کبھی 
اٹکا ہے اب تو ان سے جی گرچہ وہ منہ چھپا گئے 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *