Iztirab

Iztirab

کچھ ایسا پاس غیرت اٹھ گیا اس عہد پر فن میں

کچھ ایسا پاس غیرت اٹھ گیا اس عہد پر فن میں
کہ زیور ہو گیا طوق غلامی اپنی گردن میں
شجر سکتے میں ہیں خاموش ہیں بلبل نشیمن میں
سدھارا قافلہ پھولوں کا سناٹا ہے گلشن میں
گراں تھی دھوپ اور شبنم بھی جن پودوں کو گلشن میں
تری قدرت سے وہ پھولے پھلے صحرا کے دامن میں
ہوائے تازہ دل کو خود بخود بے چین کرتی ہے
قفس میں کہہ گیا کوئی بہار آئی ہے گلشن میں
مٹانا تھا اسے بھی جذبہ شوق فنا تجھ کو
نشان قبر مجنوں داغ ہے صحرا کے دامن میں
زمانہ میں نہیں اہل ہنر کا قدر داں باقی
نہیں تو سیکڑوں موتی ہیں اس دریا کے دامن میں
یہاں تسبیح کا حلقہ وہاں زنار کا پھندا
اسیری لازمی ہے مذہب شیخ و برہمن میں
جنہیں سینچا تھا خون دل سے اگلے باغبانوں نے
ترستے اب ہیں پانی کو وہ پودے میرے گلشن میں
دکھایا معجزہ حسن بشر کا دست قدرت نے
بھری تاثیر تصویر گلی کے رنگ و روغن میں
شہید یاس ہوں رسوا ہوں ناکامی کے ہاتھوں سے
جگر کا چاک بڑھ کر آ گیا ہے میرے دامن میں
جہاں میں رہ کے یوں قائم ہوں اپنی بے ثباتی پر
کہ جیسے عکس گل رہتا ہے آب جوئے گلشن میں
شراب حسن کو کچھ اور ہی تاثیر دیتا ہے
جوانی کے نمو سے بے خبر ہونا لڑکپن میں
شباب آیا ہے پیدا رنگ ہے رخسار نازک سے
فروغ حسن کہتا ہے سحر ہوتی ہے گلشن میں
نہیں ہوتا ہے محتاج نمائش فیض شبنم کا
اندھیری رات میں موتی لٹا جاتی ہے گلشن میں
متاع درد دل اک دولت بیدار ہے مجھ کو
در شہوار ہیں اشک محبت میرے دامن میں
نہ بتلائی کسی نے بھی حقیقت راز ہستی کی
بتوں سے جا کے سر پھوڑا بہت دیر برہمن میں
پرانی کاوشیں دیر و حرم کی مٹتی جاتی ہے
نئی تہذیب کے جھگڑے ہیں اب شیخ و برہمن میں
اڑا کر لے گئی باد خزاں اس سال اس کو بھی
رہا تھا ایک برگ زرد باقی میرے گلشن میں
وطن کی خاک سے مر کر بھی ہم کو انس باقی ہے
مزا دامان مادر کا ہے اس مٹی کے دامن میں

برج نرائن چکبست

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *