Iztirab

Iztirab

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی

کچھ تو ہوا بھی سرد تھی کچھ تھا ترا خیال بھی 
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی 
بات وہ آدھی رات کی رات وہ پورے چاند کی 
چاند بھی عین چیت کا اس پہ ترا جمال بھی 
سب سے نظر بچا کے وہ مجھ کو کچھ ایسے دیکھتا 
ایک دفعہ تو رک گئی گردش ماہ و سال بھی 
دل تو چمک سکے گا کیا پھر بھی تراش کے دیکھ لیں 
شیشہ گران شہر کے ہاتھ کا یہ کمال بھی 
اس کو نہ پا سکے تھے جب دل کا عجیب حال تھا 
اب جو پلٹ کے دیکھیے بات تھی کچھ محال بھی 
میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر 
ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی 
اس کی سخن طرازیاں میرے لیے بھی ڈھال تھیں 
اس کی ہنسی میں چھپ گیا اپنے غموں کا حال بھی 
گاہ قریب شاہ رگ گاہ بعید وہم و خواب 
اس کی رفاقتوں میں رات ہجر بھی تھا وصال بھی 
اس کے ہی بازوؤں میں اور اس کو ہی سوچتے رہے 
جسم کی خواہشوں پہ تھے روح کے اور جال بھی 
شام کی نا سمجھ ہوا پوچھ رہی ہے اک پتا 
.موج ہوائے کوئے یار کچھ تو مرا خیال بھی

پروین شاکر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *