محتاج خراباتی، یا پاک نمازی ہے
کچھ کر نہ نظر اس پر واں نکتہ نوازی ہے
کچھ راہِ خدا دے جا، جا تیرا بھلا ہو
دنیا کے کیا کرتا ہے سیکڑوں تو دھندے
پر کام خدا را بھی کر لے کوئی یاں بندے
کچھ راہِ خدا دے جا، جا تیرا بھلا ہوگا
دنیا ہے سرا، اس میں تو بیٹھا مسافر ہے
اور جانتا ہے یاں سے جانا تجھے آخر ہے
کچھ راہِ خدا دے جا، جا تیرا بھلا ہوگا
جو رب نے دیا تجھ کو تو نام پہ دے رب کے
گریاں نہ دیا تو نے واں لیوے گا کیا بندے
کچھ راہِ خدا دے جا، جا تیرا بھلا ہوگا
دیوے گا اسی کو تو وہ جس کو ہے دلواتا
پر ہے یہ ظفرؔ تجھ کو آواز سنا جاتا
کچھ راہِ خدا دے جا، جا تیرا بھلا ہوگا
بہادر شاہ ظفر