Iztirab

Iztirab

کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر

کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر 
تہمت تراشتے ہیں ہوا کے دباؤ پر 
موسم ہے سرد مہر لہو ہے جماؤ پر 
چوپال چپ ہے بھیڑ لگی ہے الاؤ پر 
سب چاندنی سے خوش ہیں کسی کو خبر نہیں 
پھاہا ہے ماہتاب کا گردوں کے گھاؤ پر 
اب وہ کسی بساط کی فہرست میں نہیں 
جن منچلوں نے جان لگا دی تھی داؤ پر 
سورج کے سامنے ہیں نئے دن کے مرحلے 
اب رات جا چکی ہے گزشتہ پڑاؤ پر 
گلدان پر ہے نرم سویرے کی زرد دھوپ 
حلقہ بنا ہے کانپتی کرنوں کا گھاؤ پر 
یوں خود فریبیوں میں سفر ہو رہا ہے طے 
بیٹھے ہیں پل پہ اور نظر ہے بہاؤ پر 
موسم سے ساز غیرت گلشن سے بے نیاز 
حیرت ہے مجھ کو اپنے چمن کے سبھاؤ پر 
کیا دور ہے کہ مرہم زنگار کی جگہ 
اب چارہ گر شراب چھڑکتے ہیں گھاؤ پر 
تاجر یہاں اگر ہیں یہی غیرت یہود 
پانی بکے گا خون شہیداں کے بھاؤ پر 
پہلے کبھی رواج بنی تھی نہ بے حسی 
نادم بگاڑ پر ہیں نہ خوش میں بناؤ پر 
ہر رنگ سے پیام اترتے ہیں روح میں 
پڑتی ہے جب نگاہ دھنک کے جھکاؤ پر 
دانشؔ مرے شریک سفر ہیں وہ کج مزاج 
ساحل نے جن کو پھینک دیا ہے بہاؤ پر 

احسان دانش

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *