Iztirab

Iztirab

کچھ نہ کچھ سوچتے رہا کیجے

کچھ نہ کچھ سوچتے رہا کیجے 
آسماں دیکھتے رہا کیجے 
چار دیواریٔ عناصر میں 
کودتے پھاندتے رہا کیجے 
اس تحیر کے کارخانے میں 
انگلیاں کاٹتے رہا کیجے 
کھڑکیاں بے سبب نہیں ہوتیں 
تاکتے جھانکتے رہا کیجے 
راستے خواب بھی دکھاتے ہیں 
نیند میں جاگتے رہا کیجے 
فصل ایسی نہیں جوانی کی 
دیکھتے بھالتے رہا کیجے 
آئنے بے جہت نہیں ہوتے 
عکس پہچانتے رہا کیجے 
زندگی اس طرح نہیں کٹتی 
فقط اندازتے رہا کیجے 
نا سپاسان علم کے سر پہ 
پگڑیاں باندھتے رہا کیجے 

رسا چغتائی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *