Iztirab

Iztirab

کھنڈر

اسی اداس کھنڈر کے اداس ٹیلے پر 
جہاں پڑے ہیں نکیلے سے سرمئی کنکر 
جہاں کی خاک پہ شبنم کے ہار بکھرے ہیں 
شفق کی نرم کرن جس پہ جھلملاتی ہے 
شکستہ اینٹوں پہ مکڑی کے جال ہیں جس جا 
یہیں پہ دل کو نئے درد سے دو چار کیا 
کسی کے پاؤں کی آہٹ کا انتظار کیا 
اسی اداس کھنڈر کے اداس ٹیلے پر 
یہ نہر جس میں کبھی لہر بھی اٹھی ہوگی 
جو آج دیدۂ بے آب و نور ہے گویا 
جسے حباب کے رنگین قمقمے نہ ملے 
بجائے موج جہاں سانپ رقص کرتے تھے 
یہیں نگاہ تمنا کو اشک بار کیا 
کسی کے پاؤں کی آہٹ کا انتظار کیا 
اسی اداس کھنڈر کے اداس ٹیلے پر 
مہیب غار کے کونے پہ یہ جھکا سا درخت 
فضا میں لٹکی ہوئی کھوکھلی جڑیں جس کی 
یہ ٹہنیاں جو ہواؤں میں تھرتھراتی ہیں 
بتا رہی ہیں کہ ماضی کی یادگار ہیں ہم 
انہیں کی چھاؤں میں شام جنوں سے پیار کیا 
کسی کے پاؤں کی آہٹ کا انتظار کیا 
اسی اداس کھنڈر کے اداس ٹیلے پر 

شمیم کرہانی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *