Iztirab

Iztirab

کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا

کہاں آ کے رکنے تھے راستے کہاں موڑ تھا اسے بھول جا 
وُہ جُو مِل گیا اسے یاد رکھ ، جُو نہیں ملا اسے بھول جا 
وُہ تیرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں 
دِل بے خبر میری بات سُن ، اسے بھول جا اسے بھول جا 
میں تُو گم تھا ترے ہی دھیان میں ، تیری آس ترے گمان میں 
صبا کہہ گئی میرے کان میں ، میرے ساتھ آ اسے بھول جا 
کسی آنکھ میں نہیں اشک غم ، تیرے بعد کچھ بھی نہیں ہے کم 
تُجھے زندگی نے بھلا دیا ، تُو بھی مسکرا اسے بھول جا 
کہیں چاک جاں کا رفو نہیں ، کسی آستیں پہ لہو نہیں 
کے شہید راہ ملال کا نہیں خوں بہا اسے بھول جا 
کیوں اٹا ہوا ہے غبار میں غم زندگی کہ فشار میں 
وُہ جُو درد تھا تیرے بخت میں ، سو وُہ ہو گیا اسے بھول جا 
تُجھے چاند بن کہ ملا تھا ، جُو تیرے ساحلوں پہ کھلا تھا جُو 
.وُہ تھا ایک دریا وصَال کا سو اتر گیا اسے بھول جا 

امجد اسلام امجد

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *