Iztirab

Iztirab

کہہ گیا کچھ تو زیر لب کوئی

کہہ گیا کچھ تو زیر لب کوئی 
جان دیتا ہے بے سبب کوئی 
جاوے قاصد ادھر تو یہ کہیو 
راہ تکتا ہے روز و شب کوئی 
گو کہ آنکھوں میں اپنی آوے جان 
منہ دکھاتا ہے ہم کو کب کوئی 
بن گیا ہوں میں صورت دیوار 
سامنے آ گیا ہے جب کوئی 
گرچہ ہم سائے اس پری کے رہے 
نہ ملا جھانکنے کا ڈھب کوئی 
حد خوش آیا یہ شعر میرؔ مجھے 
کر کے لایا تھا منتخب کوئی 
اب خدا مغفرت کرے اس کی 
میرؔ مرحوم تھا عجب کوئی 
اے فلک اس کو تو غنیمت جان 
مصحفیؔ سا نہیں ہے اب کوئی 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *