Iztirab

Iztirab

کہ در گفتن نمی آید

مری جاں گو تجھے دل سے بھلایا جا نہیں سکتا 
مگر یہ بات میں اپنی زباں پر لا نہیں سکتا 
تجھے اپنا بنانا موجب راحت سمجھ کر بھی 
تجھے اپنا بنا لوں یہ تصور لا نہیں سکتا 
ہوا ہے بارہا احساس مجھ کو اس حقیقت کا 
ترے نزدیک رہ کر بھی میں تجھ کو پا نہیں سکتا 
مرے دست ہوس کی دسترس ہے جسم تک تیرے 
سمجھتا ہوں کہ تیرے دل پہ قبضہ پا نہیں سکتا 
ترے دل کی تمنا بھی کروں تو کس بھروسے پر 
میں خود درگاہ میں تیری یہ تحفہ لا نہیں سکتا 
مری مجبوریوں کو بھی بہت کچھ دخل ہے اس میں 
تجھی کو مورد الزام میں ٹھہرا نہیں سکتا 
میں تجھ سے بڑھ کے اپنی آبرو کو پیار کرتا ہوں 
میں اپنے عزت و ناموس کو ٹھکرا نہیں سکتا 
ترے ماحول کی پستی کا طعنہ دوں تجھے کیوں کر 
میں خود ماحول سے اپنے رہائی پا نہیں سکتا 

گوپال متل

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *