Iztirab

Iztirab

کیا جانئے کس بات پہ مغرور رہی ہوں

کیا جانئے کس بات پہ مغرور رہی ہوں
کہنے کو تو جس راہ چلایا ہے چلی ہوں
تم پاس نہیں ہو تو عجب حال ہے دل کا
یوں جیسے میں کچھ رکھ کے کہیں بھول گئی ہوں
پھولوں کے کٹوروں سے چھلک پڑتی ہے شبنم
ہنسنے کو ترے پیچھے بھی سو بار ہنسی ہوں
تیرے لیے تقدیر مری جنبش ابرو
اور میں ترا ایمائے نظر دیکھ رہی ہوں
صدیوں سے مرے پاؤں تلے جنت‌ انساں
میں جنت انساں کا پتہ پوچھ رہی ہوں
دل کو تو یہ کہتے ہیں کہ بس قطرۂ خوں ہے
کس آس پہ اے سنگ سر راہ چلی ہوں
جس ہاتھ کی تقدیس نے گلشن کو سنوارا
اس ہاتھ کی تقدیر پہ آزردہ رہی ہوں
قسمت کے کھلونے ہیں اجالا کہ اندھیرا
دل شعلہ طلب تھا سو بہرحال جلی ہوں
ادا جعفری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *