Iztirab

Iztirab

کیا جانے کس کی پیاس بجھانے کدھر گئیں

کیا جانے کس کی پیاس بجھانے کدھر گئیں 
اس سر پہ جھوم کے جو گھٹائیں گزر گئیں 
دیوانہ پوچھتا ہے یہ لہروں سے بار بار 
کچھ بستیاں یہاں تھیں بتاؤ کدھر گئیں 
اب جس طرف سے چاہے گزر جائے کارواں 
ویرانیاں تو سب مرے دل میں اتر گئیں 
پیمانہ ٹوٹنے کا کوئی غم نہیں مجھے 
غم ہے تو یہ کہ چاندنی راتیں بکھر گئیں 
پایا بھی ان کو کھو بھی دیا چپ بھی ہو رہے 
اک مختصر سی رات میں صدیاں گزر گئیں 

کیفی اعظمی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *