Iztirab

Iztirab

کیا دخل کسی سے مرض عشق شفا ہو

کیا دخل کسی سے مرض عشق شفا ہو 
ممکن ہے کہ اس درد کی دنیا میں دوا ہو 
بالوں کا گھرس رکھنا ہے پگڑی ہی میں بہتر 
کیا فائدہ اک خلق گرفتار بلا ہو 
مغرور نہ رہ ہستئ موہوم پہ غافل 
یاں آنکھ جھپکتے ہی خدا جانیے کیا ہو 
اے مشت غبار تن فرسودۂ عاشق 
اس کو میں زمیں گیر ہے گیو اب تو ہوا ہو 
گر چرخ پہ جاوے تو شفق ہووے مرا خوں 
ور خاک میں پنہاں ہو تو واں رنگ حنا ہو 
ہے صبح سے کچھ آج مرے دل کو بشاشت 
اس کوچے سے قاصد تو نہ خط لے کے چلا ہو 
کیا دور ہے گر روح مری بعد فنا بھی 
پھرتی رہے کوچے میں ترے باد صبا ہو 
پردہ میں اٹھاتا نہیں زنہار کسی کا 
اس ڈر سے کہیں تو ہی نہ پردے میں چھپا ہو 
ہے آئینے میں عکس ترا تیری ہی صورت 
تو اس پہ فدا اور وہ تیرے پہ فدا ہو 
چلتے ہی ترے بام پہ آیا ہے وہ کافر 
کیوں اتنے قدم جلد اٹھاتا ہے کھڑا ہو 
اے مصحفیؔ اس کوچے سے تو سر کو جھکائے 
کیا جاوے ہے کم بخت ذرا رو بہ قفا ہو 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *