Iztirab

Iztirab

کیا ستم کر گئی اے دوست تری چشم کرم

کیا ستم کر گئی اے دوست تری چشم کرم
جیسے تیرے نہیں دنیا کے گنہ گار ہیں ہم
کوئی عالم ہو بہرحال گزر جاتا ہے
ہم نہ سرگشتہ راحت ہیں نہ آشفتہ غم
تری زلفوں کی گھنی چھاؤں بہت دور سہی
جادہ پیما ہیں حوادث کی کڑی دھوپ میں ہم
نکہت گل سے کچھ اس طرح ملاقات ہوئی
یاد آیا تری بیگانہ وشی کا عالم
ہم ہیں طوفان ملامت ہے گلی ہے تیری
حسن تقدیر سے ہوتے ہیں یہ حالات بہم
لے گیا عشق کسی شاہد نادیدہ تک
مدتوں ذوق پرستش نے تراشے تھے صنم
ہم نے ہر عقدہ دشوار کا منہ چوم لیا
کتنے دل کش ہیں تری زلف گرہ گیر کے خم
کوئے قاتل ہی سہی منزل راحت نہ سہی
تھک کے بیٹھے ہیں کہ آتے ہیں بہت دور سے ہم
کوئے جاناں میں کہیں آج تو ہم بھی تھے روشؔ
شکر ہے ہم کو نہ پہچان سکے دیر و حرم

روش صدیقی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *