Iztirab

Iztirab

کیا میں جاتا ہوں صنم چھٹ ترے در اور کہیں

کیا میں جاتا ہوں صنم چھٹ ترے در اور کہیں 
لے قسم مجھ سے جو میرا ہو گزر اور کہیں 
رفتگی کا ہے یہ عالم کہ ترے وقت خرام 
پاؤں جاتے ہیں کہیں اور کمر اور کہیں 
صبح پر وصل کی ٹھہری ہے شب ہجر ترے 
جاویں جلدی سے گزر چار پہر اور کہیں 
وادیٔ قیس میں جو لے گئی مجھ کو وحشت 
دل کے بہلانے کی جا تھی نہ مگر اور کہیں 
اس کے کوچے کو تو اے آہ غنیمت ہی سمجھ 
سچ تو یہ ہے نہیں اتنا بھی اثر اور کہیں 
ہم ہیں اور خوشۂ پرویں کا تماشا ہمہ شب 
جا کے جھمکائیے یہ عقد گہر اور کہیں 
لاابالی مری دیکھے ہے تو آئینہ کہاں 
دل ترا اور کہیں ہے تو نظر اور کہیں 
وعدۂ وصل دیا عید کی شب ہم کو صنم 
اور تم جا کے ہوئے شیر و شکر اور کہیں 
سامنے اس کے لگوں رونے تو جھنجھلا کے کہے 
یاں سے لے جائیے یہ دیدۂ تر اور کہیں 
چمن لالہ ستاں میں مجھے جانے دے صبا 
چنگے ہوں گے نہ مرے داغ جگر اور کہیں 
تفرقہ باد خزاں نے یہ چمن میں ڈالا 
گل کہیں اور پڑا ہے تو ثمر اور کہیں 
برگ و بر یہ ترے کوچے میں تو لاتا ہی نہیں 
جا کے بٹھلاویں گے خواہش کا شجر اور کہیں 
ایسے گھبرائے کہ حالت نہ رہی کچھ باقی 
دیکھ آئے جو اسے شمس و قمر اور کہیں 
گر میں بد نام ہوا اس کی گلی میں تو ہوا 
یارو اب یاں سے نہ جاوے یہ خبر اور کہیں 
مصحفیؔ میں ہوں وہ سرگشتہ کہ خورشید کی طرح 
شام گر اور کہیں کی تو سحر اور کہیں 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *