کیا ہوا انسان کی پہچان کو
پوجتا ہے جانور بے جان کو
بعد مدت اپنی دھن میں ہیچ سمجھا حسن کے فرمان کو
ہو گیا کیا عشق کے عرفان کو
زندگی کا ماحصل پایا نہیں
ہم نے سینے سے لگا رکھا ہے جھوٹی شان کو
جان ہے مہمان اک دن جائے گی
تابکے روکیں گے ہم مہمان کو
ہو جو مطلب تو پرستش بھی کرے
نوچتا ہے ورنہ یہ انسان ہی انسان کو
اس قدر وحشت بڑھی انسان میں
دیکھ کر حیرت ہوئی حیوان کو
وہ سمجھ جائے گا آخر جس میں ہے کچھ سوجھ بوجھ
کون سمجھائے مگر نادان کو
میرا سونا من ہے اب سنسار سے دامن کشاں
ٹھیس وہ پہنچی ہے میرے مان کو
کرشن موہنؔ کس قدر جبر و تشدد سہہ لیا
آدمی نے سر چڑھایا اس قدر ایمان کو
کرشن موہن