Iztirab

Iztirab

کیا ہے پیار جسے ہم نے زندگی کی طرح

کیا ہے پیار جسے ہم نے زندگی کی طرح 
وہ آشنا بھی ملا ہم سے اجنبی کی طرح 
کسے خبر تھی بڑھے گی کچھ اور تاریکی 
چھپے گا وہ کسی بدلی میں چاندنی کی طرح 
بڑھا کے پیاس مری اس نے ہاتھ چھوڑ دیا 
وہ کر رہا تھا مروت بھی دل لگی کی طرح 
ستم تو یہ ہے کہ وہ بھی نہ بن سکا اپنا 
قبول ہم نے کیے جس کے غم خوشی کی طرح 
کبھی نہ سوچا تھا ہم نے قتیلؔ اس کے لیے 
کرے گا ہم پہ ستم وہ بھی ہر کسی کی طرح 

قتیل شفائی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *