Iztirab

Iztirab

کیوں ہجر کے شکوے کرتا ہے کیوں درد کے رونے روتا ہے

کیوں ہجر کے شکوے کرتا ہے کیوں درد کے رونے روتا ہے 
اب عشق کیا تو صبر بھی کر اس میں تو یہی کچھ ہوتا ہے 
آغاز مصیبت ہوتا ہے اپنے ہی دل کی شامت سے 
آنکھوں میں پھول کھلاتا ہے تلووں میں کانٹے بوتا ہے 
احباب کا شکوہ کیا کیجئے خود ظاہر و باطن ایک نہیں 
لب اوپر اوپر ہنستے ہیں دل اندر اندر روتا ہے 
ملاحوں کو الزام نہ دو تم ساحل والے کیا جانو 
یہ طوفاں کون اٹھاتا ہے یہ کشتی کون ڈبوتا ہے 
کیا جانیے یہ کیا کھوئے گا کیا جانئے یہ کیا پائے گا 
مندر کا پجاری جاگتا ہے مسجد کا نمازی سوتا ہے 
خیرات کی جنت ٹھکرا دے ہے شان یہی خودداری کی 
جنت سے نکالا تھا جس کو تو اس آدم کا پوتا ہے 

حفیظ جالندھری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *