Iztirab

Iztirab

کیے آرزو سے پیماں جو مال تک نہ پہنچے

کیے آرزو سے پیماں جو مال تک نہ پہنچے 
شب و روز آشنائی مہ و سال تک نہ پہنچے 
وہ نظر بہم نہ پہنچی کے محیط حسن کرتے 
تری دید کہ وسیلے خد و خال تک نہ پہنچے 
وہی چشمۂ بقا تھا جسے سب سراب سمجھے 
وہی خواب معتبر تھے جو خیال تک نہ پہنچے 
ترا لطف وجہ تسکیں نہ قرار شرح غم سے 
کے ہیں دل میں وہ گلے بھی جو ملال تک نہ پہنچے 
کوئی یار جاں سے گزرا کوئی ہوش سے نہ گزرا 
یہ ندیم یک دو ساغر مرے حال تک نہ پہنچے 
چلو فیض دل جلائیں کریں پھر سے عرض جاناں 
.وہ سخن جو لب تک آئے پہ سوال تک نہ پہنچے 

فیض احمد فیض

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *