Iztirab

Iztirab

گئیں یاروں سے وہ اگلی ملاقاتوں کی سب رسمیں

گئیں یاروں سے وُہ اگلی ملاقاتوں کی سب رسمیں 
پڑا جس دِن سے دِل بس میں تیرے اُور دِل کہ ہم بس میں 
کبھی ملنا کبھی رہنا الگ مانند مژگاں کہ
تماشہ کج سرشتوں کا ہے کچھ اخلاص کہ بس میں 
توقع کیا ہو جینے کی تیرے بیمار ہجراں کہ
نہ جنبش نبض میں جس کی نہ گرمی جس کہ ملمس
میں 
دکھائے چیرہ دستی آہ بالادست گر اپنی 
تُو مارے ہاتھ دامان قیامت چرخ اطلس میں 
جُو ہے گوشہ نشیں ترے خیال مست ابرو میں 
وُہ ہے بیت الصنم میں بھی تُو ہے بیت المقدس میں 
کرے لب آشنا حرف شکایت سے کہاں یہ دم 
تیرے محزون بے دم میں تیرے مفتون بیکس میں 
ہوائے کوے جاناں لے اڑے اس کو تعجب کیا 
تن لاغر میں ہے جاں اِس طرح جس طرح بو خس میں 
مُجھے ہو کس طرح قول و قسم کا اعتبار ان کہ
ہزاروں دے چکے وُہ قول لاکھوں کھا چکے قسمیں 
ہوئے سب جمع مضموں ذوقؔ دیوان دو عالم کہ
.حواس خمسہ ہیں انساں کہ وُہ بند مخمس میں

شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *