Iztirab

Iztirab

گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ

گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ 
عجیب مانوس اجنبی تھا ، مجھے تو حیران کر گیا وہ 
بس ایک موتی سی چھب دکھا کر بس ایک میٹھی سی دھن سنا کر 
ستارۂ شام بن کہ آیا برنگ خواب سحر گیا وہ 
خوشی کی رت ہو کے غم کا موسم نظر اسے ڈھونڈتی ہے ہر دم 
وہ بوئے گل تھا کہ نغمۂ جاں میرے تُو دل میں اتر گیا وہ 
نہ اب وہ یادوں کا چڑھتا دریا ، نہ فرصتوں کی اداس برکھا 
یوں ہی ذرا سی کسک ہے دل میں ، جو زخم گہرا تھا بھر گیا وہ 
کچھ اب سنبھلنے لگی ہے جاں ،  بھی بدل چلا دور آسماں بھی 
جو رات بھاری تھی ٹل گئی ہے ، جو دن کڑا تھا گزر گیا وہ 
بس ایک منزل ہے بوالہوس کی ، ہزار رستے ہیں اہل دل کہ
یہی تو ہے فرق مُجھ میں ، اس میں ، گزر گیا میں ٹھہر گیا وہ 
شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں ، گئے دنوں کو بلا رہا ہوں 
جو قافلہ میرا ہم سفر تھا ، مثال گرد سفر گیا وہ 
میرا تو خوں ہو گیا ہے پانی ، ستم گروں کی پلک نہ بھیگی 
جو نالہ اٹھا تھا رات دل سے ، نہ جانے کیوں بے اثر گیا وہ 
وہ مے کدے کو جگانے والا ، وہ رات کی نیند اڑانے والا 
یہ آج کیا اس کہ جی میں آئی ، کہ شام ہوتے ہی گھر گیا وہ 
وہ ہجر کی رات کا ستارہ ، وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا 
صدا رہے اس کا نام پیارا ، سنا ہے کل رات مر گیا وہ 
وہ جس کہ شانے پہ ہاتھ رکھ کر ، سفر کیا تو نے منزلوں کا 
تیری گلی سے نہ جانے کیوں ، آج سر جھکائے گزر گیا وہ 
وہ رات کا بے نوا مسافر ، وہ تیرا شاعر ، وہ تیرا ناصرؔ 
.تیری گلی تک تو ہم نے دیکھا تھا ، پھر نہ جانے کدھر گیا وہ 

ناصر کاظمی 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *