Iztirab

Iztirab

گرلز کالج کی لاری

فضاؤں میں ہے صبح کا رنگ طاری 
گئی ہے ابھی گرلز کالج کی لاری 
گئی ہے ابھی گونجتی گنگناتی 
زمانے کی رفتار کا راگ گاتی 
لچکتی ہوئی سی چھلکتی ہوئی سی 
بہکتی ہوئی سی مہکتی ہوئی سی 
وہ سڑکوں پہ پھولوں کی دھاری سی بنتی 
ادھر سے ادھر سے حسینوں کو چنتی 
جھلکتے وہ شیشوں میں شاداب چہرے 
وہ کلیاں سی کھلتی ہوئی منہ اندھیرے 
وہ ماتھے پہ ساڑی کے رنگیں کنارے 
سحر سے نکلتی شفق کے اشارے 
کسی کی ادا سے عیاں خوش مذاقی 
کسی کی نگاہوں میں کچھ نیند باقی 
کسی کی نظر میں محبت کے دوہے 
سکھی ری یہ جیون پیا بن نہ سوہے 
یہ کھڑکی کا رنگین شیشہ گرائے 
وہ شیشے سے رنگین چہرا ملائے 
یہ چلتی زمیں پہ نگاہیں جماتی 
وہ ہونٹوں میں اپنے قلم کو دباتی 
یہ کھڑکی سے اک ہاتھ باہر نکالے 
وہ زانو پہ گرتی کتابیں سنبھالے 
کسی کو وہ ہر بار تیوری سی چڑھتی 
دکانوں کے تختے ادھورے سے پڑھتی 
کوئی اک طرف کو سمٹتی ہوئی سی 
کنارے کو ساڑی کے بٹتی ہوئی سی 
وہ لاری میں گونجے ہوئے زمزمے سے 
دبی مسکراہٹ سبک قہقہے سے 
وہ لہجوں میں چاندی کھنکتی ہوئی سی 
وہ نظروں سے کلیاں چٹکتی ہوئی سی 
سروں سے وہ آنچل ڈھلکتے ہوئے سے 
وہ شانوں سے ساغر چھلکتے ہوئے سے 
جوانی نگاہوں میں بہکی ہوئی سی 
محبت تخیل میں بہکی ہوئی سی 
وہ آپس کی چھیڑیں وہ جھوٹے فسانے 
کوئی ان کی باتوں کو کیسے نہ مانے 
فسانہ بھی ان کا ترانہ بھی ان کا 
جوانی بھی ان کی زمانہ بھی ان کا 

جاں نثاراختر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *