Iztirab

Iztirab

گلوں سی گفتگو کریں قیامتوں کے درمیاں

گلوں سی گفتگو کریں قیامتوں کے درمیاں
ہم ایسے لوگ اب ملیں حکایتوں کے درمیاں
لہولہان انگلیاں ہیں اور چپ کھڑی ہوں میں
گل و سمن کی بے پناہ چاہتوں کے درمیاں
ہتھیلیوں کی اوٹ ہی چراغ لے چلوں ابھی
ابھی سحر کا ذکر ہے روایتوں کے درمیاں
جو دل میں تھی نگاہ سی نگاہ میں کرن سی تھی
وہ داستاں الجھ گئی وضاحتوں کے درمیاں
صحیفۂ حیات میں جہاں جہاں لکھی گئی
لکھی گئی حدیث جاں جراحتوں کے درمیاں
کوئی نگر کوئی گلی شجر کی چھاؤں ہی سہی
یہ زندگی نہ کٹ سکے مسافتوں کے درمیاں
اب اس کے خال و خد کا رنگ مجھ سے پوچھنا عبث
نگہ جھپک جھپک گئی ارادتوں کے درمیاں
صبا کا ہاتھ تھام کر اداؔ نہ چل سکوگی تم
تمام عمر خواب خواب ساعتوں کے درمیاں
ادا جعفری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *