گلوں کو تازگی تاروں کو تو نے دل کشی دے دی مرے دل کی کلی کو جانے کیوں افسردگی دیدی بقدر ظرف اس نے آگہی و گمرہی دے دی خودی دے دی کسی کو اور کسی کو بے خودی دے دی زمانہ کچھ کہے اے دوست لیکن شکریہ تیرا کوئی تو مصلحت تھی جو مجھے دیوانگی دے دی مری ناکامیاں ہی کام آئیں راہ الفت میں غبار کارواں نے ہمت منزل رسی دے دی نہ پوچھ اے ہم نشیں آزردۂ انجام عشرت ہو غم اس کا کر رہا ہوں اس نے کیوں مجھ کو خوشی دے دی کسی کی پرسش خاموش بھی اک حسن پرسش تھا کہ جس نے پھر ہماری زندگی کو زندگی دے دی حقیقت میں جنون عشق معراج محبت ہے اسے سب کچھ دیا تو نے جسے دیوانگی دے دی دم آخر جو دم بھر کو چلے آؤ گے بالیں پر تو یہ سمجھوں گا میں لاکھوں برس کی زندگی دے دی ضرورت التجاؤں کی نہ حاجت ہے دعاؤں کی شفاؔ غم کیا دیا اس نے مسرت دائمی دے دی
شفا گوالیاری