Iztirab

Iztirab

گلوں کو تازگی تاروں کو تو نے دل کشی دے دی

گلوں کو تازگی تاروں کو تو نے دل کشی دے دی 
مرے دل کی کلی کو جانے کیوں افسردگی دیدی 
بقدر ظرف اس نے آگہی و گمرہی دے دی 
خودی دے دی کسی کو اور کسی کو بے خودی دے دی 
زمانہ کچھ کہے اے دوست لیکن شکریہ تیرا 
کوئی تو مصلحت تھی جو مجھے دیوانگی دے دی 
مری ناکامیاں ہی کام آئیں راہ الفت میں 
غبار کارواں نے ہمت منزل رسی دے دی 
نہ پوچھ اے ہم نشیں آزردۂ انجام عشرت ہو 
غم اس کا کر رہا ہوں اس نے کیوں مجھ کو خوشی دے دی 
کسی کی پرسش خاموش بھی اک حسن پرسش تھا 
کہ جس نے پھر ہماری زندگی کو زندگی دے دی 
حقیقت میں جنون عشق معراج محبت ہے 
اسے سب کچھ دیا تو نے جسے دیوانگی دے دی 
دم آخر جو دم بھر کو چلے آؤ گے بالیں پر 
تو یہ سمجھوں گا میں لاکھوں برس کی زندگی دے دی 
ضرورت التجاؤں کی نہ حاجت ہے دعاؤں کی 
شفاؔ غم کیا دیا اس نے مسرت دائمی دے دی 

شفا گوالیاری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *