Iztirab

Iztirab

گلہ اے دل ابھی سے کرتا ہے

گلہ اے دل ابھی سے کرتا ہے
عشق کا دم اسی پہ بھرتا ہے
جان دیتا ہے عیش فانی پر
بس اسی زندگی پہ مرتا ہے
راحت جاوداں کو بھول گیا
کوئی دنیا میں یہ بھی کرتا ہے
عشق بن کر جئے تو خاک جیے
زندہ وہ ہے جو ان پہ مرتا ہے
نام پر اس کے سب جو دے بیٹھا
وہی اک ہے جو نام کرتا ہے
وقف مومن ہے آزمائش عشق
اس میں پورا وہی اترتا ہے
جس کو دنیا نے نامراد کیا
وہی ناکام کام کرتا ہے
ہے مسلماں کی بس یہی پہچان
کہ فقط اک خدا سے ڈرتا ہے
قول مومن ہے اس کے فعل کی شرح
وہ جو کہتا ہے کر گزرتا ہے
مطمئن رہ دلا وہ جان جہاں
وعدہ کر کے کہیں مکرتا ہے
میرے رنگ کفن کی شوخی دیکھ
یوں ہی عاشق ترا سنورتا ہے
آج کر لو جو کر سکو کل تک
کون جیتا ہے کون مرتا ہے
قلزم عشق میں گرا سو گرا
اس کا ڈوبا کہیں ابھرتا ہے
اس قدر احتیاط اے صیاد
کہ قفس میں بھی پر کترتا ہے
وہی دن ہے ہماری عید کا دن
جو تری یاد میں گزرتا ہے
مے اسلام کا بھلا جوہرؔ
نشہ چڑھ کر کہیں اترتا ہے

مولانا محمد علی جوہر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *