Iztirab

Iztirab

گناہوں سے نشوونما پا گیا دل

گناہوں سے نشوونما پا گیا دل 
در پختہ کاری پہ پہنچا گیا دل 
اگر زندگی مختصر تھی تو پھر کیا 
اسی میں بہت عیش کرتا گیا دل 
یہ ننھی سی وسعت یہ نادان ہستی 
نئے سے نیا بھید کہتا گیا دل 
نہ تھا کوئی معبود پر رفتہ رفتہ 
خود اپنا ہی معبود بنتا گیا دل 
نہیں گریہ و خندہ میں فرق کوئی 
جو روتا گیا دل تو ہنستا گیا دل 
بجائے دل اک تلخ آنسو رہے گا 
اگر ان کی محفل میں آیا گیا دل 
پریشاں رہا آپ تو فکر کیا ہے 
ملا جس سے بھی اس کو بہلا گیا دل 
کئی راز پنہاں ہیں لیکن کھلیں گے 
اگر حشر کے روز پکڑا گیا دل 
بہت ہم بھی چالاک بنتے تھے لیکن 
ہمیں باتوں باتوں میں بہکا گیا دل 
کہی بات جب کام کی میراجیؔ نے 
وہیں بات کو جھٹ سے پلٹا گیا دل 

میراجی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *