Iztirab

Iztirab

گھاس تو مجھ جیسی ہے

گھاس بھی مجھ جیسی ہے 
پاؤں تلے بچھ کر ہی زندگی کی مراد پاتی ہے 
مگر یہ بھیگ کر کس بات گواہی بنتی ہے 
شرمساری کی آنچ کی 
کہ جذبے کی حدت کی 
گھاس بھی مجھ جیسی ہے 
ذرا سر اٹھانے کے قابل ہو 
تو کاٹنے والی مشین 
اسے مخمل بنانے کا سودا لیے 
ہموار کرتی رہتی ہے 
عورت کو بھی ہموار کرنے کے لیے 
تم کیسے کیسے جتن کرتے ہو 
نہ زمیں کی نمو کی خواہش مرتی ہے 
نہ عورت کی 
میری مانو تو وہی پگڈنڈی بنانے کا خیال درست تھا 
جو حوصلوں کی شکستوں کی آنچ نہ سہہ سکیں 
وہ پیوند زمیں ہو کر 
یوں ہی زور آوروں کے لیے راستہ بناتے ہیں 
مگر وہ پر کاہ ہیں 
گھاس نہیں 
گھاس تو مجھ جیسی ہے

کشور ناہید

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *