Iztirab

Iztirab

گھبرائیے کیوں زندگی بے کیف اگر ہے

گھبرائیے کیوں زندگی بے کیف اگر ہے
آخر شب تاریک کا انجام سحر ہے
وہ شام کی صورت ہے نہ وہ رنگ سحر ہے
کس کوکب منحوس کا یا رب یہ اثر ہے
افسانۂ غم سینۂ بلبل میں ہے فریاد
اوراق گل تر میں بعنوان دگر ہے
بے درد ہے انساں تو ہیں سب اس کے ہنر عیب
ہے دل میں اگر درد تو ہر عیب ہنر ہے
ثابت ہے بہ ہر طور غم عشق رم حسن
آرام کو پوچھو تو ادھر ہے نہ ادھر ہے
مصنوع کو صانع سے جدا کر نہیں سکتا
آئینے میں عکس ہنر آئنہ گر ہے
روتی ہوئی آنکھوں میں ہے غرقاب تبسم
پنجاب ہے دہلی میں جو اب راہ گزر ہے
پھولوں میں ترا رنگ ہے کانٹوں میں تری نوک
یہ حسن ترا ہے کہ مرا حسن نظر ہے
محرومؔ مگر عشق تمہارا ہے ریائی
فریاد میں تاثیر نہ آہوں میں اثر ہے

تلوک چند محروم

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *