Iztirab

Iztirab

گھر کی رونق

ہم اپنے اہل سیاست کے دل سے قائل ہیں
کہ حق میں قوم کے وہ مادر مسائل ہیں
قدم قدم پہ نئے گل کھلاتے رہتے ہیں
طرح طرح کے مسائل اگاتے رہتے ہیں
کبھی یہ دھن ہے کہ صوبوں کی پھر سے ہو تشکیل
کبھی یہ ضد ہے کہ حد بندیاں نہ ہوں تبدیل
کبھی یہ شور کرو ختم چور بازاری
منافع خوروں کی لیکن نہ ہو گرفتاری
برائے بحث کھڑا ہے کبھی یہ ہنگامہ
لباس قوم کا دھوتی ہو یا کہ پاجامہ
ہر ایک بحث میں کچھ کشت و خوں ضروری ہے
نہیں تو جو بھی ہے تحریک وہ ادھوری ہے
ہر ایک فتنہ و شورش کا آخری جلوہ
مظاہرات و جلوس و تصادم و بلوہ
یونہی اٹھائی گئی بحث جب زباں کے لیے
''سخن بہانہ ہوا مرگ ناگہاں کے لیے''
وہ مسئلہ کہ جو دانش کدوں میں حل ہوتا
بلا سے آج اگر طے نہ ہوتا کل ہوتا
اسے بھی اہل سیاست نے کر لیا اغوا
اور اس کے بعد وہ سب کچھ ہوا جو ہونا تھا
نفاق و بغض و تعصب کے آ گئے ریلے
زباں کی آڑ میں اہل فساد کھل کھیلے
مخالفت میں ہوئی جا بہ جا صف آرائی
جلوس لے کے چلے اک طرف سے بلوائی
لبوں پہ غلغلۂ ''انقلاب زندہ باد''
مگر دلوں میں دبائے ہوئے شرار فساد
دکانیں لوٹی گئیں راہ گیر مارے گئے
گھروں میں آگ لگی طفل و پیر مارے گئے
وہ پہلا شخص جو کھا کر چھرے کا زخم گرا
مزے کی بات تو یہ ہے، غریب گونگا تھا
مزید یہ کہ اسے جاں سے مارنے والے
کسی زبان سے واقف نہ تھے خود ان پڑھ تھے
رضا نقوی واہی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *