Iztirab

Iztirab

ہارون کی آواز

دیکھو ابھی ہے وادی کنعاں نگاہ میں
تازہ ہر ایک نقش کف پا ہے راہ میں
یعقوب بے بصر سہی یوسف کی چاہ میں
لہرا رہا ہے آج بھی طرہ کلاہ میں
یہ طرہ گر گیا تو الٹ جائے گی زمیں
محور سے اپنے اور بھی ہٹ جائے گی زمیں
تاریخ کے سفر میں غلط بھی قدم اٹھے
گاہے لباس فقر میں اہل حشم اٹھے
گاہے صنم تراش بہ نام حرم اٹھے
پردے نگاہ کے بھی مگر بیش و کم اٹھے
یوں بھی ہوا دہائی اکائی میں ڈھل گئی
خورشید کے الاؤ میں ہر شے پگھل گئی
جب یوں نہ ہو سکا تو یہ تاریخ ہے گواہ
اٹھے عصا بدست غلامان کج کلاہ
زیر زمیں کشادہ ہوئی زندگی کی راہ
اور کچھ نہ کر سکی کسی فرعون کی سپاہ
ہر موج نیل سانپ سی بل کھا کے رہ گئی
اہرام کی نگاہ بھی پتھرا کے رہ گئی
اضداد کی یہ جنگ اصول قدیم ہے
اور اب کہ آدمی کی اکائی دو نیم ہے
افلاک کے تلے سہی مٹی عظیم ہے
ہارون کی زبان بھی لوح کلیم ہے
حد سے گزر نہ جائیں کہیں کمترین لوگ
موسیٰ کے انتظار میں ہیں بے زمین لوگ
حمایت علی شاعر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *