ہر آشنا میں کہاں خوئے محرمانہ وہ
کہ بے وفا تھا مگر دوست تھا پرانا وہ
پکارتے ہیں مہ و سال منزلوں کی طرح
لگا ہے توسن ہستی کو تازیانہ وہ
ہمیں بھی غم طلبی کا نہیں رہا یارا
ترے بھی رنگ نہیں گردش زمانہ وہ
اب اپنی خواہشیں کیا کیا اسے رلاتی ہیں
یہ بات ہم نے کہی تھی مگر نہ مانا وہ
یہی کہیں گے کہ بس صورت آشنائی تھی
جو عہد ٹوٹ چکا یاد کیا دلانا وہ
اس ایک شکل میں کیا کیا نہ صورتیں دیکھیں
نگار تھا نظر آیا نگار خانہ وہ
بجھا دیا ہے تجھے بھی فرازؔ دنیا نے
کہاں گیا ترا ہر وقت مسکرانا وہ