Iztirab

Iztirab

ہر ایک روح میں اک غم چھپا لگے ہے مجھے

ہر ایک روح میں اک غم چھپا لگے ہے مجھے 
یہ زندگی تو کوئی بد دعا لگے ہے مجھے 
پسند خاطر اہل وفا ہے مدت سے 
یہ دل کا داغ جو خود بھی بھلا لگے ہے مجھے 
جو آنسوؤں میں کبھی رات بھیگ جاتی ہے 
بہت قریب وہ آواز پا لگے ہے مجھے 
میں سو بھی جاؤں تو کیا میری بند آنکھوں میں 
تمام رات کوئی جھانکتا لگے ہے مجھے 
میں جب بھی اس کے خیالوں میں کھو سا جاتا ہوں 
وہ خود بھی بات کرے تو برا لگے ہے مجھے 
میں سوچتا تھا کہ لوٹوں گا اجنبی کی طرح 
یہ میرا گاؤں تو پہچانتا لگے ہے مجھے 
نہ جانے وقت کی رفتار کیا دکھاتی ہے 
کبھی کبھی تو بڑا خوف سا لگے ہے مجھے 
بکھر گیا ہے کچھ اس طرح آدمی کا وجود 
ہر ایک فرد کوئی سانحہ لگے ہے مجھے 
اب ایک آدھ قدم کا حساب کیا رکھئے 
ابھی تلک تو وہی فاصلہ لگے ہے مجھے 
حکایت غم دل کچھ کشش تو رکھتی ہے 
زمانہ غور سے سنتا ہوا لگے ہے مجھے 

جاں نثاراختر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *