Iztirab

Iztirab

ہر سانس ہے شرح ناکامی پھر عشق کو رسوا کون کرے

ہر سانس ہے شرح ناکامی پھر عشق کو رسوا کون کرے 
تکمیل وفا ہے مٹ جانا جینے کی تمنا کون کرے 
جو غافل تھے ہشیار ہوئے جو سوتے تھے بیدار ہوئے 
جس قوم کی فطرت مردہ ہو اس قوم کو زندہ کون کرے 
ہر صبح کٹی ہر شام کٹی بیداد سہی افتاد سہی 
انجام محبت جب یہ ہے اس جنس کا سودا کون کرے 
حیراں ہیں نگاہیں دل بے خود محجوب ہے حسن بے پروا 
اب عرض تمنا کس سے ہو اب عرض تمنا کون کرے 
فطرت ہے ازل سے پابندی کچھ قدر نہیں آزادی کی 
نظروں میں ہیں دل کش زنجیریں رخ جانب صحرا کون کرے

دل شاہجہاں پوری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *