ہر عقدۂ تقدیر جہاں کھول رہی ہے ہاں دھیان سے سننا یہ صدی بول رہی ہے انگڑائیاں لیتی ہے تمنا تری دل میں شیشے میں پری ناز کے پر تول رہی ہے رہ رہ کے کھنک جاتی ہے ساقی یہ شب ماہ اک جام پلا خنکئ شب بول رہی ہے دل تنگ ہے شب کو کفن نور پنہا کے وہ صبح جو غنچوں کی گرہ کھول رہی ہے شبنم کی دمک ہے کہ شب ماہ کی دیوی موتی سر گلزار جہاں رول رہی ہے رکھتی ہے مشیت حد پرواز جہاں بھی انسان کی ہمت وہیں پر تول رہی ہے پہلو میں شب تار کے ہے کون سی دنیا جس کے لئے آغوش سحر کھول رہی ہے ہر آن وہ رگ رگ میں چٹکتی ہوئی کلیاں اس شوخ کی اک ایک ادا بول رہی ہے
فراق گورکھپوری