Iztirab

Iztirab

ہر چند دکھ دہی سے زمانے کو عشق ہے

ہر چند دکھ دہی سے زمانے کو عشق ہے 
لیکن میرے بھی تاب کہ لانے کو عشق ہے 
آشفتہ سر ہیں یاں دل صد چاک بھی کئی 
تنہا نہ تری زلف سے شانے کو عشق ہے 
افلاک بیٹھے جائیں تھے جس بوجھ کہ تلے 
آدم کہ ویسے بار اٹھانے کو عشق ہے 
وحِشت کو اپنی شہر و بیاباں میں جا نہیں 
عاقل کو اب دعا و دوانے کو عشق ہے 
یارب بن آئی آدمی مر جائے پر نہ ہو 
وہ رنج بد بلا جُو کہانے کو عشق ہے 
دل کو چھٹا وہیں سے پھنسایا تُو زلف میں 
اے عشق ترے بات بڑھانے کو عشق ہے 
قائمؔ ہوس سے گو کے کہی سب نے یہ غزل 
.لیکن تیرے ردیف بٹھانے کو عشق ہے 

قائم چاند پوری 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *