Iztirab

Iztirab

ہر چند کہ بات اپنی کب لطف سے خالی ہے

ہر چند کہ بات اپنی کب لطف سے خالی ہے 
پر یار نہ سمجھیں تو یہ بات نرالی ہے 
آغوش میں ہے وہ اور پہلو مرا خالی ہے 
معشوق مرا گویا تصویر خیالی ہے 
کیا ڈر ہے اگر اس نے در سے مجھے اٹھوایا 
کہتے ہیں تغیری میں عاشق کی بحالی ہے 
بالیں پہ جب آیا ہے بیمار کی تو اپنے 
تب روح کے قابض نے جان اس کی نکالی ہے 
میں حال بیاں اپنا کرتا ہوں غزل کہہ کے 
اس واسطے اب میرا جو شعر ہے حالی ہے 
مہندی کے لگانے میں پھرتی یہ نہیں دیکھی 
ظالم نے ہتھیلی پر سرسوں سی جما لی ہے 
ہر چند کہ پروانہ جل جانے میں ہے آندھی 
پر شمع بھی آتش میں جی جھونکنے والی ہے 
مانی نے شبیہ اس کی کیا سوچ کے کھینچی تھی 
موئے کمر اس کے کی تصویر خیالی ہے 
ظاہر ہے کہ جاگے ہو تم رات کہیں رہ کر 
آنکھوں میں نشے کی تو کچھ تھوڑی سی لالی ہے 
مقدور مگر کب تھا قربان ہیں ہم اس کے 
دامن کی ترے جس نے یہ جھونک سنبھالی ہے 
اے مصحفیؔ ہے تیرا اتنا جو سخن چسپاں 
کیا تو نے جواں درزن گھر میں کوئی ڈالی ہے 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *