Iztirab

Iztirab

ہزار شکر کہ اندیشہ مال گیا

ہزار شکر کہ اندیشہ مال گیا
کوئی کسی سے جو کہنے کو دل کا حال گیا
کہاں کہاں نہیں دونوں کو دسترس حاصل
وہیں نگاہ بھی پہنچی جہاں خیال گیا
جواب میں نہ کھلیں لب تو کیا علاج اس کا
ہنسی ہنسی میں کوئی میری بات ٹال گیا
عجب تھیں فلسفیٔ نامراد کی باتیں
یقیں کے ساتھ مرے دل میں شک بھی ڈال گیا
قدم قدم پہ ہوئے ہوش گم منورؔ کے
تلاش دوست کا سودا گیا خیال گیا

منور لکھنوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *