ہزار کفر ہیں اک چشم پارسا میں تری بھری ہوئی ہے شرارت ادا ادا میں تری بقا کو اپنی مشیت تری سمجھتا ہوں مری حیات قضا کار ہے رضا میں تری مرے حبیب مری آخرت کے اے ضامن مرے نصیب کی جنت ہے خاک پا میں تری یہ کس مقام سے تو نے خطاب فرمایا سنی گئی مری آواز بھی صدا میں تری یہ سوچ کر نہ منورؔ نے کچھ کیا شکوہ وفا کی داد کا پہلو بھی ہے جفا میں تری
منور لکھنوی