Iztirab

Iztirab

ہستی اپنی حباب کی سی ہے

ہستی اپنی حباب کی سی ہے 
یہ نمائش سراب کی سی ہے 
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے 
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے 
چشم دل کھول اس بھی عالم پر 
یاں کی اوقات خواب کی سی ہے 
بار بار اس کے در پہ جاتا ہوں 
حالت اب اضطراب کی سی ہے 
نقطہ خال سے ترا ابرو 
بیت اک انتخاب کی سی ہے 
میں جو بولا کہا کہ یہ آواز 
اسی خانہ خراب کی سی ہے 
آتش غم میں دل بھنا شاید 
دیر سے بو کباب کی سی ہے 
دیکھیے ابر کی طرح اب کے 
میری چشم پر آب کی سی ہے 
میرؔ ان نیم باز آنکھوں میں 
.ساری مستی شراب کی سی ہے

میر تقی میر

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *