Iztirab

Iztirab

ہمیں نت اسیر بلا چاہتا ہے

ہمیں نت اسیر بلا چاہتا ہے 
ہماری خوشی کب خدا چاہتا ہے 
شب و روز رویا کریں خون آنکھیں 
یہی تو وہ رنگ حنا چاہتا ہے 
وہ کرتا ہے اپنے ہی جی میں برائی 
کسی کا کوئی گر برا چاہتا ہے 
دلا بیٹھ رہ رکھ کے دنداں جگر پر 
توکل کا گر تو مزا چاہتا ہے 
اسے آپ سے دھیان آنے کا تیرے 
وہ گل تجھ کو باد صبا چاہتا ہے 
مرے استخواں سے بھی ہے اس کو نفرت 
مرے فاقہ کر کے ہما چاہتا ہے 
نہیں خواہش اس کی کھلی ہم پہ اب تک 
وہ کیا مانگتا ہے وہ کیا چاہتا ہے 
مگر یہ کہ ان روزوں پھر مصحفیؔ کو 
ترے غم میں سودا ہوا چاہتا ہے 

غلام ہمدانی مصحفی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *