ہم آنکھوں سے بھی عرض تمنا نہیں کرتے
مبہم سا اشارہ بھی گوارا نہیں کرتے
حاصل ہے جنہیں دولت صد آبلہ پائی
وہ شکوہ بے رنگی صحرا نہیں کرتے
صد شکر کہ دل میں ابھی اک قطرہ خوں ہے
ہم شکوہ بے رنگی دنیا نہیں کرتے
مقصود عبادت ہے فقط دید نہیں ہے
ہم پوجتے ہیں آپ کو دیکھا نہیں کرتے
کافی ہے ترا نقش قدم چاہے جہاں ہو
ہم پیروی دیر و کلیسا نہیں کرتے
سجدہ بھی ہے منجملہ اسباب نمائش
جو خود سے گزر جاتے ہیں سجدا نہیں کرتے
جن کو ہے تری ذات سے یک گونہ تعلق
وہ تیرے تغافل کی بھی پروا نہیں کرتے
یہ لمحۂ حاضر تو ہے کونین کا حاصل
ہم حال کو نذر غم فردا نہیں کرتے
ہر آگ کو پہلو میں چھپا لیتے ہیں ساغرؔ
ہم تندی صہبا سے بھی پگھلا نہیں کرتے
ساغر نظامی