Iztirab

Iztirab

ہم انہیں وہ ہمیں بھلا بیٹھے

ہم انہیں وہ ہمیں بھلا بیٹھے
دو گنہ گار زہر کھا بیٹھے
حال غم کہہ کے غم بڑھا بیٹھے
تیر مارے تھے تیر کھا بیٹھے
آندھیو جاؤ اب کرو آرام
ہم خود اپنا دیا بجھا بیٹھے
جی تو ہلکا ہوا مگر یارو
رو کے ہم لطف غم گنوا بیٹھے
بے سہاروں کا حوصلہ ہی کیا
گھر میں گھبرائے در پہ آ بیٹھے
جب سے بچھڑے وہ مسکرائے نہ ہم
سب نے چھیڑا تو لب ہلا بیٹھے
ہم رہے مبتلائے دیر و حرم
وہ دبے پاؤں دل میں آ بیٹھے
اٹھ کے اک بے وفا نے دے دی جان
رہ گئے سارے با وفا بیٹھے
حشر کا دن ابھی ہے دور خمارؔ
آپ کیوں زاہدوں میں جا بیٹھے
خمار بارہبنکوی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *