Iztirab

Iztirab

ہم اگر دشت جنوں میں نہ غزل خواں ہوتے

ہم اگر دشت جنوں میں نہ غزل خواں ہوتے 
شہر ہوتے بھی تو آواز کے زنداں ہوتے 
زندگی تیرے تقاضے اگر آساں ہوتے 
کتنے آباد جزیرے ہیں کہ ویراں ہوتے 
تو نے دیکھا ہی نہیں پیار سے ذروں کی طرف 
آنکھ ہوتی تو ستارے بھی نمایاں ہوتے 
آرزوؤں سے جو پیمان وفا ہم رکھتے 
سانحے زخم بھی ہوتے تو گلستاں ہوتے 
عشق ہی شعلۂ امکان سحر ہے ورنہ 
خواب تعبیر سے پہلے ہی پریشاں ہوتے 
ماضی و دوش کا ہر داغ ہے فردا کا چراغ 
کاش یہ شام و سحر صرف دل و جاں ہوتے 
ضبط طوفاں کی طبیعت ہی کا اک رخ ہے ضمیرؔ 
موج آواز بدل لیتی ہے طوفاں ہوتے 

سید ضمیر جعفری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *