Iztirab

Iztirab

ہم دونوں میر کے عاشق ہیں

خوشی کی بات ہے کہ ’’کتاب نما‘‘ کی یہ خصوصی اشاعت شمس الرحمن فاروقی کے نام سے منسوب ہے۔ شمس الرحمٰن شاعر بھی ہیں اور دانشور نقاد بھی (جی ہاں۔ ہمارے یہاں غیردانشور نقاد بھی ہیں) نقاد کی حیثیت سے ان کا درجہ بلند ہے۔ وہ باخبر بھی ہیں اور بالغ نظر بھی۔ ضروری نہیں کہ ان کی ہر بات سے اتفاق کیا جائے لیکن ان کی تحریر ہمیشہ پڑھنے کی چیز رہی ہے۔ میں انہیں شوق سے پڑھتا ہوں۔ آج کل ان کی کتاب ’’شعر شور انگیز‘‘ کی پہلی جلد میرے زیر مطالعہ ہے۔ اس کو پہلے بھی پڑھ چکا ہوں اور شاید آئندہ بھی پڑھوں گا۔ میں نے میر کا کلیات سات بار پڑھا ہے۔ آٹھویں بار پڑھنے کی ہمت نہیں ہے۔ اس عالم میں ’’شعر شور انگیز‘‘ لطف و انبساط کا باعث ہے۔
اس کا انتخاب میرے ’’انتخاب دیوان میر‘‘ سے زیادہ وسیع ہے اور فارسی و اردو کے بے شمار شعراء کے اشعار سے آراستہ ہوکر اور دلچسپ بن گیا ہے۔ اس لیے کہ کتاب بار بار پڑھی جاسکتی ہے۔ کسی بھی کتاب کے لیے یہ ایک بڑا وصف ہے۔ میرا مطالعہ سماجی اور سیاسی پس منظر کے ساتھ ہے اور صوفیانہ افکار کی بعض تشریحات شامل ہیں۔ شمس الرحمن کا زور زبان کے حسن اور بلاغت پر ہے۔ شعر کی فنی خوبیوں پر ہے۔ دونوں ایک دوسرے کی کمی پوری کرتی ہیں۔ میرے نزدیک میر کا شمار دنیا کے عظیم ترین شاعروں میں ہونا چاہیے۔ اور ان عظیم شاعروں میں کوئی میرتقی میر کی طرح اپنے عہد کا اتنا بڑا وقائع نگار نہیں ہے اور شاعرانہ حدود کے اندر رہ کر اور ان حدود کو وسیع تر کرکے میر نے اپنے عہد کے درد کو بیان کیا ہے۔
ہم دونوں میر کے عاشق ہیں اور اس عشق میں رقابت کا شائبہ بھی نہیں ہے۔ دونوں کے قلم کی روشنائی میر کے خون جگر سے حاصل کی گئی ہے۔
بمبئی
3/جولائی 1994
علی سردار جعفری

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *